پاک-چین اور پاک-امریکہ تعلقات میں بیلن
آج ہم قوم کی حقیقی راہنمائی کا بیڑا اٹھانے والے
پاکستان ووٹرز فرنٹ کے راہنما جناب جاوید تنویر صاحب سے اس معاملے پر تفصیلی بات کریں گے جس سے قومی اور بین الاقوامی معاملات میں حکمرانوں سمیت عوام بھی فوائد حاصل کر سکتے ہیں
سوال 1:
پاکستان کے لیے بیک وقت امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنا کتنا ممکن ہے؟
جواب:
یہ آج کے دور میں ایک نہایت حساس اور پیچیدہ معاملہ ہے۔ تعلقات کا توازن صرف خارجہ پالیسی سے نہیں بلکہ قومی خودمختاری، معیشت، سیکیورٹی اور جغرافیائی سیاست سے جڑا ہے۔
جب تک ہم معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط نہیں ہوں گے، کوئی بھی بیلنس محض کاغذی کاروائی ہوگی۔
سوال 2:
ماضی میں امریکہ کے ساتھ تعلقات کا تجربہ کیسا رہا ہے؟
ب
جواب:
تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ "استعمال کرو اور چھوڑ دو" کی پالیسی اپنائی۔
1965 اور 1971 کی جنگوں میں ہماری مدد نہیں کی بلکہ اسلحہ بند کر دیا۔
افغان جنگ کے بعد پابندیاں لگا دیں۔
وار آن ٹیرر میں ایک بلین ڈالر ضایع کرنے علاؤہ بے شمار قربانیاں دینے کے باوجود ہمیں "دوغلا اتحادی" کہا گیا۔
یہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ کے تعلقات ہمیشہ اس کے اپنے مفاد کے تابع ہوتے ہیں۔
سوال 3:
چین کے ساتھ تعلقات کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب:
چین نے ہمیشہ مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا — چاہے ایٹمی پروگرام کا معاملہ ہو یا ٹیکنیکل سپورٹ ہو یا CPEC۔ چین کا مفاد یہ ہے کہ پاکستان مستحکم رہے، کیونکہ یہ اس کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ یہ تعلقات زیادہ طویل المدتی اور ہمدرد ہمسایہ ہونے کے ساتھ ساتھ باہمی احترام پر مبنی ہیں۔
سوال 4:
جنرل عاصم منیر کی ٹرمپ سے ملاقات پر کیا خدشات ہیں؟
جواب:
اگر یہ ملاقات صرف سفارتی سطح پر تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش ہے تو اچھی بات ہے، لیکن اگر اس کے نتیجے میں چین کے اعتماد کو نقصان پہنچے تو یہ ایک اسٹریٹجک غلطی ہوگی۔ امریکہ کبھی نہیں چاہتا کہ پاکستان چین کے ساتھ آزاد اور مضبوط تعلقات رکھے۔
سوال 5:
پاکستان کو آگے کیا حکمت عملی اپنانی چاہیے؟
جواب: حقیقی سیاسی استحکام کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے مواقع دینا چاہیں اور ذیادہ سے زیادہ
معاشی خود انحصاری پیدا کرنا چاہیے تاکہ ہم کسی پر انحصار نہ کریں۔
سب سے دوستی، کسی کی غلامی نہیں۔
CPEC کو قومی وقار کا حصہ سمجھنا اور اس کے خلاف ہر سازش ناکام بنانا۔
عالمی سطح پر باوقار اور خودمختار بیانیہ رکھنا۔
سوال 6:
کیا پاکستان کو امریکہ سے تعلقات ختم کر دینے چاہئیں؟
جواب:
بالکل نہیں۔ تعلقات ختم نہیں کرنے چاہئیں، لیکن عزت اور وقار کے ساتھ اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھنا چاہئیں۔ ہمیں وقتی فائدے کے لیے چین جیسے قابلِ اعتماد دوست کی ناراضی مول نہیں لینی چاہیے۔
سوال 7:
بھارت کی جارحیت اور کشمیر کے مسئلے پر کیا پالیسی ہونی چاہیے؟
جواب:
پاکستان کو واضح اعلان کرنا چاہیے تھا کہ کشمیر کی آزادی کی ناقابلِ تنسیخ یقین دہانی کے بغیر کوئی جنگ بندی قبول نہیں ہوگی۔ یہ صرف سرحدی مسئلہ نہیں بلکہ قومی سلامتی اور نظریاتی شناخت کا معاملہ ہے۔ بھارت کو ہر محاذ پر مؤثر جواب دینا ہوگا عسکری، سفارتی اور معاشی سطح پر۔
اس سوال کا مؤثر اور دلائل سے بھرپور جواب یوں ہو سکتا ہے:
سوال 8 :
کیا شرائط طے کیے بغیر ٹرمپ کے کہنے پر بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی نے پاکستان کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچایا؟
جواب:
جی بالکل، یہ ایک اسٹریٹجک غلطی تھی۔ کوئی بھی جنگ بندی قومی مفاد کی ضمانت دینے والی شرائط کے بغیر محض وقتی سکون تو دے سکتی ہے، لیکن طویل المدتی نقصان پہنچاتی ہے۔
پہلی بات، بھارت نے جنگ بندی کے بعد کبھی بھی اپنی جارحانہ حکمتِ عملی ترک نہیں کی، بلکہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مزید بڑھا دیں۔
دوسری بات، جنگ بندی سے قبل کم از کم یہ شرط رکھی جانی چاہیے تھی کہ کشمیر کے حتمی حل اور کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت پر باضابطہ پیش رفت ہوگی۔
تیسری بات، اس غیر مشروط جنگ بندی نے بھارت کو بین الاقوامی سطح پر ایک "پرامن فریق" کا جھوٹا تاثر دیا، جبکہ اصل میں اس نے وقت حاصل کر کے اپنی عسکری پوزیشن مضبوط کی۔
پاکستان کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ شرائط کے بغیر امن کی کوئی قیمت نہیں، کیونکہ اس سے دشمن کو موقع ملتا ہے اور ہمیں نقصان۔ یہ وہی غلطی تھی جو ہمیں مستقبل میں نہیں دہرانا چاہیے — خاص طور پر جب بات کشمیر جیسے نظریاتی اور اسٹریٹجک معاملے کی ہو۔
سوال ٹرمپ کو جنگ بندی کروانے کی کیا جلدی تھی۔
جواب:
بڑی سادہ سی بات ہے جسے گنا پھرا کرنے کی اس ناچیز کو عادت نہیں۔
اس سوال کا جواب جنگ شروع ہونے پہلے امریکی نائب صدر پینس کا اپنی بھارتی نژاد بیوی کے ساتھ بھارت میں ہونا اور جنگ شروع ہوتے ہیں اس جنگ سے لا تعلقہ کا اظہار کر دینا اور اس کے ساتھ بھی ٹریمپ کا جنگ میں مداخلت سے صاف انکار کرنا۔۔
یہ وہ حقیت ہیں جن پر ہمارے ارباب اختیار توجہ نہیں دے سکے کہ بھارت کو افواج پاکستان کے دندان شکن جواب ملتے ہیں ٹرمپ صاحب کو جنگ بندی کے پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھنے لگے۔۔۔
صاف ظاہر ہے کہ خطے میں چین اور پاکستان کے خلاف کھڑے کیے گئے اپنے چوہدری کو مار پڑتے ہی اسے بچانے نکل کھڑے ہوئے
کبھی کسی نے غور کیا ٹرمپ کی بات بار پاکستان کی بار تعریف کے پیچھے کس خوف کی جھلک محسوس ہوتی بھارتی جارحیت کے خلاف اسرائیل، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں اس خوف کی لہر نے پاکستان اور اسلام مخالف ابلیسی قوتوں کی نیندیں نیندیں حرام کردیں۔۔
مگر اس صورت حال بغیر شرایط جنگ بندی کر کے عظیم افواج پاکستان کی قربانیوں سے کشمیر آزاد کروانے کا نادر موقع بھی ضائع کر دیا اور آج بھارتی سورما پھر اپنی شکست کو چھپاتے ہوئے پاکستان کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔
سوال:
کیا امریکہ بلوچستان اور سرحدی علاقوں میں بھارتی سرپرستی میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوئی مدد کر سکتا ہے؟
جواب:
دیکھیں، حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اگر چاہے تو بلوچستان اور پاکستان کے قبائلی و سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے میں بہت مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے، کیونکہ:
1. انٹیلیجنس صلاحیت:
امریکہ کے پاس سیٹلائٹ، سگنل انٹیلیجنس (SIGINT) اور انسانی ذرائع (HUMINT) کے ذریعے ایسے ٹھوس شواہد اکٹھے کرنے کی صلاحیت ہے جو بھارتی مداخلت اور دہشت گردی کے نیٹ ورک کو بے نقاب کر سکیں۔
2. بین الاقوامی دباؤ:
امریکہ چاہے تو بھارت پر عالمی سطح پر دباؤ ڈال کر اس کے پراکسی نیٹ ورکس بند کروا سکتا ہے — لیکن اس کے لیے سیاسی ارادہ درکار ہے، جو ماضی میں اکثر امریکی پالیسی کا حصہ نہیں رہا۔
3. مالی اور عسکری تعاون:
اگر امریکہ واقعی دہشت گردی کے خلاف مخلص ہوتا، تو وہ پاکستان کو جدید ٹیکنالوجی، بارڈر سیکیورٹی سسٹمز اور انسدادِ دہشت گردی فنڈنگ فراہم کرتا۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ماضی کے تجربات — چاہے وہ افغان وار کے بعد کا رویہ ہو یا وار آن ٹیرر کے دوران ڈرون پالیسی — یہ ثابت کرتے ہیں کہ امریکہ کا تعاون اکثر اپنے مفاد تک محدود ہوتا ہے، اور بلوچستان یا سرحدی علاقوں میں بھارتی پراکسیز کو ختم کرنے کے لیے وہ کبھی بھرپور سنجیدہ قدم نہیں اٹھاتا۔
لہٰذا پاکستان کو کسی قسم کے لالچ میں نہیں آنا چاہے بلکہ اس ابلیسی قوت کا بچھایا جال سمجھ اپنی خود مختار پالیسی اور چین و علاقائی اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا، کیونکہ امریکہ کا ریکارڈ یہ ہے کہ وہ اکثر ایسے معاملات میں یا تو خاموش رہتا ہے یا دو طرفہ کھیل کھیلتا ہے۔
سوال:
اگر امریکہ کی مفاد پرستی کو سامنے رکھیں تو امریکہ سے مدد طلب کرنے کے کیا مضمرات ہو سکتے ہیں؟ کیا معاشی اور دفاعی تعاون کی آڑ میں امریکہ پاکستان کے قدرتی وسائل اور دفاعی معاملات پر کنٹرول کی بہتر پوزیشن میں نہیں آ جاتا؟
جواب:
جی بالکل، یہ ایک نہایت اہم نکتہ ہے۔ امریکہ کا ماضی اور موجودہ رویہ یہ واضح کرتا ہے کہ اس کا ہر قسم کا تعاون بنیادی طور پر اپنے اسٹریٹجک اور معاشی مفاد کے لیے ہوتا ہے۔
1. معاشی انحصار = پالیسی دباؤ
جب کوئی ملک معاشی طور پر امریکہ پر انحصار کرتا ہے، تو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک یا امریکی امداد کی شرائط کے ذریعے اس کی خارجہ اور دفاعی پالیسی پر اثرانداز ہونا آسان ہو جاتا ہے۔
2. قدرتی وسائل تک رسائی
دفاعی تعاون یا سرمایہ کاری کے معاہدوں کی آڑ میں امریکہ اکثر انرجی، مائننگ اور آئل اینڈ گیس سیکٹر میں ایکسپلوریشن اور کنٹرول رائٹس حاصل کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وسائل ہمارے، لیکن فیصلہ کرنے کا اختیار ان کے پاس۔
3. دفاعی معاملات میں اثرورسوخ
ہتھیاروں، ٹیکنالوجی یا عسکری تربیت کی فراہمی کے ساتھ امریکہ اکثر آپریشنل شرائط طے کرتا ہے، جس سے ہماری دفاعی خودمختاری محدود ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، وہ حساس معلومات تک رسائی یا مخصوص آپریشنز میں اپنی مرضی کے مطابق شرکت کا مطالبہ کرتا ہے۔
4. پالیسی کی غلامی کا خطرہ
جب بھی کوئی ملک امریکی مفادات سے ہٹ کر فیصلے کرتا ہے، امریکہ فوراً پابندیاں، امداد کی بندش یا سیاسی دباؤ ڈال کر اسے لائن میں لانے کی کوشش کرتا ہے — ایران، وینزویلا اور ترکی اس کی واضح مثالیں ہیں۔
نتیجہ:
امریکہ سے مدد لینا مکمل طور پر منع نہیں، لیکن بغیر شرائط طے کیے، متبادل ذرائع کے بغیر، اور طویل المدتی اسٹریٹجک تحفظات کے بغیر اس پر انحصار کرنا پاکستان کو نہ صرف معاشی بلکہ دفاعی غلامی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں کسی بھی امریکی تعاون کو متوازن، شفاف اور قومی مفاد کے تابع رکھنا ہوگا، نہ کہ اس کے برعکس۔
آپ کا سوال نہایت حساس اور اسٹریٹجک پہلو رکھتا ہے، اس کا جواب مؤثر انداز میں یوں تیار کیا جا سکتا ہے:
سوال:
جب بھارت کی پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی سرپرستی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، اور یہ بھی واضح ہے کہ امریکی و اسرائیلی پشت پناہی کے بغیر بھارت ایسی جرات نہیں کر سکتا، تو کیا امریکی مدد کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف نہیں؟ کیا اس صورتحال میں پاکستان کو چین کے تعاون سے بھارت کو کھلے عام یہ باور نہیں کرانا چاہیے کہ اگر اب پاکستان میں سیکیورٹی فورسز یا شہریوں پر کوئی بھی حملہ ہوا تو پاکستان جواب میں بھارت کے اندر دہشت گردی کرانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟
جواب:
بالکل درست، زمینی حقائق یہی بتاتے ہیں کہ بھارت کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کو نہ صرف امریکہ بلکہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں بھی سفارتی، مالی اور تکنیکی مدد فراہم کرتی ہیں۔ بلوچستان اور سابق فاٹا میں دہشت گردی کے نیٹ ورکس کا انکشاف پاکستانی سیکیورٹی ادارے متعدد بار کر چکے ہیں۔
1. امریکی مدد کی حقیقت
ایسے ماحول میں امریکہ سے مدد کی توقع رکھنا حقیقت سے زیادہ ایک سیاسی خوش فہمی ہے، کیونکہ وہ کھل کر بھارت کو اسٹریٹجک پارٹنر مان چکا ہے، اور Quad اتحاد کے ذریعے چین کو گھیرنے کی پالیسی میں بھارت کو اہم کردار دے رہا ہے۔
2. چین کا کردار
چین نہ صرف پاکستان کا دیرینہ اسٹریٹجک پارٹنر ہے بلکہ CPEC اور دفاعی تعاون کے ذریعے پاکستان کی معاشی و عسکری صلاحیت بڑھانے میں بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے میں چین کے ساتھ قریبی کوآرڈینیشن پاکستان کو عالمی سطح پر مزید مضبوط مذاکراتی پوزیشن دے سکتا ہے۔
3. کھلے عام ڈیٹرنس (Deterrence) کا پیغام
اگر بھارت یہ سمجھے کہ پاکستان صرف دفاعی پوزیشن میں ہے تو دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ اس لیے بین الاقوامی سفارتی دائرے میں (خاص طور پر چین جیسے اتحادی کی حمایت سے) واضح اور دو ٹوک پیغام دینا ضروری ہے کہ اگر پاکستان کے خلاف ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی جاری رہی تو پاکستان کے پاس جوابی صلاحیت موجود ہے، چاہے وہ غیر روایتی ذرائع ہی کیوں نہ ہوں۔
آپ کا سوال نہایت حساس اور اسٹریٹجک پہلو رکھتا ہے، اس کا جواب مؤثر انداز میں یوں تیار کیا جا سکتا ہے:
---
سوال:
جب بھارت کی پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی سرپرستی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، اور یہ بھی واضح ہے کہ امریکی و اسرائیلی پشت پناہی کے بغیر بھارت ایسی جرات نہیں کر سکتا، تو کیا امریکی مدد کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف نہیں؟ کیا اس صورتحال میں پاکستان کو چین کے تعاون سے بھارت کو کھلے عام یہ باور نہیں کرانا چاہیے کہ اگر اب پاکستان میں سیکیورٹی فورسز یا شہریوں پر کوئی بھی حملہ ہوا تو پاکستان جواب میں بھارت کے اندر دہشت گردی کرانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟
جواب:
بالکل درست، زمینی حقائق یہی بتاتے ہیں کہ بھارت کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کو نہ صرف امریکہ بلکہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں بھی سفارتی، مالی اور تکنیکی مدد فراہم کرتی ہیں۔ بلوچستان اور سابق فاٹا میں دہشت گردی کے نیٹ ورکس کا انکشاف پاکستانی سیکیورٹی ادارے متعدد بار کر چکے ہیں۔
1. امریکی مدد کی حقیقت
ایسے ماحول میں امریکہ سے مدد کی توقع رکھنا حقیقت سے زیادہ ایک سیاسی خوش فہمی ہے، کیونکہ وہ کھل کر بھارت کو اسٹریٹجک پارٹنر مان چکا ہے، اور Quad اتحاد کے ذریعے چین کو گھیرنے کی پالیسی میں بھارت کو اہم کردار دے رہا ہے۔
2. چین کا کردار
چین نہ صرف پاکستان کا دیرینہ اسٹریٹجک پارٹنر ہے بلکہ CPEC اور دفاعی تعاون کے ذریعے پاکستان کی معاشی و عسکری صلاحیت بڑھانے میں بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے میں چین کے ساتھ قریبی کوآرڈینیشن پاکستان کو عالمی سطح پر مزید مضبوط مذاکراتی پوزیشن دے سکتا ہے۔
3. کھلے عام ڈیٹرنس (Deterrence) کا پیغام
اگر بھارت یہ سمجھے کہ پاکستان صرف دفاعی پوزیشن میں ہے تو دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ اس لیے بین الاقوامی سفارتی دائرے میں (خاص طور پر چین جیسے اتحادی کی حمایت سے) واضح اور دو ٹوک پیغام دینا ضروری ہے کہ اگر پاکستان کے خلاف ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی جاری رہی تو پاکستان کے پاس جوابی صلاحیت موجود ہے، چاہے وہ غیر روایتی ذرائع ہی کیوں نہ ہوں۔
4. محتاط مگر مضبوط پالیسی
البتہ، ایسے بیان کو سفارتی اور قانونی طور پر محتاط انداز میں پیش کرنا چاہیے تاکہ پاکستان عالمی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے ڈیٹرنس کا اثر پیدا کرے، لیکن کسی کو یہ موقع نہ دے کہ پاکستان کو دہشت گرد ریاست کے طور پر پیش کرے۔
نتیجہ:
پاکستان کو بھارتی دہشت گردی کے سامنے سفارتی خاموشی نہیں بلکہ جوابی صلاحیت کا بھرپور پیغام دینا چاہیے، اور یہ پیغام اسی وقت مؤثر ہوگا جب اس کے پیچھے چین جیسے اسٹریٹجک اتحادی کی کھلی حمایت موجود ہو۔ اس طرح بھارت اور اس کے پشت پناہ ممالک کو یہ اندازہ ہوگا کہ پاکستان صرف برداشت کرنے والا ملک نہیں بلکہ جوابی وار کی عملی صلاحیت رکھنے والا ملک ہے۔
4. محتاط مگر مضبوط پالیسی
البتہ، ایسے بیان کو سفارتی اور قانونی طور پر محتاط انداز میں پیش کرنا چاہیے تاکہ پاکستان عالمی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے ڈیٹرنس کا اثر پیدا کرے، لیکن کسی کو یہ موقع نہ دے کہ پاکستان کو دہشت گرد ریاست کے طور پر پیش کرے۔
پاکستان کو بھارتی دہشت گردی کے سامنے سفارتی خاموشی نہیں بلکہ جوابی صلاحیت کا بھرپور پیغام دینا چاہیے، اور یہ پیغام اسی وقت مؤثر ہوگا جب اس کے پیچھے چین جیسے اسٹریٹجک اتحادی کی کھلی حمایت موجود ہو۔ اس طرح بھارت اور اس کے پشت پناہ ممالک کو یہ اندازہ ہوگا کہ پاکستان صرف برداشت کرنے والا ملک نہیں بلکہ جوابی وار کی عملی صلاحیت رکھنے والا ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ملک ہے۔۔
پاکستان ووٹرز فرنٹ کے منشور لائحہ عمل اور قران اور حدیث کی روشنی میں تیار عوامی انتخابی پروگرام کے تفصیلی تعارف کے لئے لاہور پریس کلب میں مورخہ 07 جون 2018 کو ایک پریس کانفرنس منعقد ہوئی جس میں جاوید تنویر پاکستان ووٹرز فرنٹ نے صھافیوں کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ووٹرز اب تمام م قومی اسمبلی کے حلقوں میں ووٹروں کے منظم الیکٹورل کالج بنائے جائیں گے جو منتخب ہونے والے قومی اور صوبائی ارکان اسمبلیوں سے انفرادی ،اجتماعی اور قومی مثائل عوای امنگوں کے تحت حل کراسکیں گے۔ اور قومی امور میں براہ راست اپنی مشاورت دے سکیں گے۔
پاکستان ووٹرز فرنٹ پاکستان کے نو کروڑ سترلاکھ ووٹروں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے اپنے قومی اسمبلی کے خلقوں کی سطح پر اپنے علاقوں میں موجود ایماندار، پڑھے لکھے اور باصلاحیت افراد کےکاغذات نامزدگی برائے امیدواران قومی و صوبائی اسمبلی متعلقہ دفتر الیکشن کمیشن میں ۱۱۔جون ۲۱۰۸ تک جمع کر ادیں ۔تا کہ کا غذاتِ نامزدگی کی منظوری حاصل کرنے والے امیدواروں کے متعلق معلومات اکٹھی کر کے ان میں سے بہرتین افراد کو چن کر عوامی انتخابی پروگرام کے تحت آئندہ انتخابات میں کامیاب کروایا جا سکے۔