محترم اور میرے پیارے بھائی امجد!
آپ اور فہیم بھائی کا اختلافات ختم کرنے اور آگے بڑھنے پر زور دینا اپنی جگہ درست ہے، لیکن میرا ایمان یہ ہے کہ جب تک "کتے کو کنویں سے نہ نکالا جائے، کنویں کا پانی پاک نہیں ہوتا"۔ یہ الگ بات ہے کہ بستی کے اکثر لوگ کنویں کا ناپاک پانی پینے کے عادی ہو کر حق اور باطل میں فرق سمجھنے سے قاصر ہو جائیں اور بےحسی کا شکار ہو کر پوری برادری کی عظمت کو داؤ پر لگا دیں۔
برادران اگر ہم غلط کو غلط اور سچ کو سچ کہنے کے بجائے مصلحتوں کا سہارا لیں گے تو بظاہر وقتی سکون تو مل سکتا ہے، لیکن دلوں میں زہر اور دشمنی بڑھتی رہتی ہے۔
اور حق دار کا حق سلب ہو جاتا ہے اور حق دبانے والے کا معاشرے پر تسلط قائم ہو جاتا ہے۔ بزدلی اور منافقت عام ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے نیکی کا حکم دینے والے اکیلے رہ جاتے ہیں بدی کو روکنے والوں کی اکثریت بدی کا حصہ بن کر رہ جاتی ہے۔۔
برادران یاد رکھیں کہ
اختلاف بھی ختم ہو جاتے ہیں اگر اختلافات کو ذاتی انا یا ذاتی مفادات کا مسئلہ نہ بنا لیا جائے اور غلط فہمیاں بھی دور ہو جاتیں اگر انسان ایمانداری کے ساتھ دانشمندی سے کام لینا شروع کردے۔
واضح کرتا چلوں کہ میرے اور پہلوان جی کے اختلافات کبھی ذاتی نوعیت کے نہیں رہے ۔۔۔
بلکہ یہ اختلافات اس وقت پیدا ہوئے جب پہلوان جی نے اللّٰه کو حاضر ناضر جان کر برادری کو دئے تحریری خلف نامے کو ہوا میں اڑا کر برادری کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔۔۔
اور اس امر سے روکنے پر پہلوان جی نوبت ذاتی دشمنی تک لے آئے۔ ان کا خلف نامہ پیش خدمت کر دیا ہوا ہے۔۔۔
لہذا یہ بات اختلافات یا غلط فہمیوں کی نہیں، بلکہ حق پر ڈٹے رہنے اور باطل کے آگے ہتھیار نہ ڈالنے کی تھی۔
آپ نے پہلوان جی کا ذکر کیا تو مجھے وہ وقت یاد آ گیا جب ڈاکٹر ہمایوں مرزا نے پولیس میں میرے اور حق کے ساتھ ڈٹ جانے والے بھائی عامر کھوکھر کے خلاف جھوٹا بیانِ حلفی جمع کروایا، جس میں اس ناچیز اور عامر بھائی پر مرزا آزاد کو قتل کرنے کی سازش کا الزام لگایا گیا تاکہ ہمیں جھوٹے۔مقدمات میں پھنسا کر کے راستے سے ہٹایا جا سکے۔
تا کہ انہیں ان کے عزائم سے روکنے والا کوئی نہ بچے۔
مگر اللّٰه کا کرنا کیا ہوا کہ
تھانہ کوٹلی لوہاراں کے ایس ایچ او کے سامنے جب ہم پیش ہوئے ، ڈاکٹر ہمایوں اپنے جھوٹے بیانِ حلفی سے یہ کہہ کر معافیاں مانگنے لگا کہ اس نے یہ بیان پہلوان جی وغیرہ کے مجبور کرنے پر جمع کروایا تھا اور یہ کہ ایس ایچ او کے سامنے تحریری طور بیان خلفی جمع کروایا کہ اس کی دی ہوئی درخواست جھوٹی ہونے کی وجہ سے خارج کر دی جائے۔
برادران! اس وقت ہم ان سب کے خلاف سخت قانونی کارروائی کروا سکتے تھے مگر ڈاکٹر ہمایوں کی تحریری معافی مانگنے پر اور بچیوں کا واسطہ دینے پر اسے اللّٰه کی رضا کی خاطر چھوڑ دیا۔۔۔
اس کے بعد ہماری غلطی یہ تھی کہ ڈاکٹر ہمایوں کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے کہنے پر ۔یہ ناچیز اور عامر کھوکھر مرزا پرویز مرحوم و مغفور (سیالکوٹ کینٹ)
والوں کو ساتھ لے کر
برادری کے وسیع تر مفاد میں پہلوان جی کو سمجھانے دارالامن گئے کہ وہ بحیثیت نائب صدر تنظیم فلاح و بہبود اس طرح کی حرکتیں آئندہ نہ کریں اور اپنے دیے ہوئے خلف کی پاسداری کرتے ہوئے دارالامن کو صرف برادری کی بہتری کے لیے استعمال کریں، مگر وہ مشتعل ہو گئے اور ہم دونوں پر دارالامن میں اپنے پہلے سے موجود ساتھیوں کے ساتھ حملہ آور ہو گئے۔۔۔
جہاں عامر کھوکھر نے نہایت دلیری سے پہلوان جی کے حملہ اور ساتھیوں کو بے بس کر دیا اور پہلوان جی کو دبوچنے ہی والا تھا کہ۔ہمارے ساتھ گئے مرزا پرویز صاحب اس حوفناک صورت حال کو دیکھتے ہوئے دل کی تکلیف ہو گئی۔
اور ہم دونوں سب چھوڑ چھاڑ کر پرویز بھائی کو سنبھالنے میں لگ گئے کچھ دیر بعد ان کی حالت سنبھلنے پر انہیں ان کے گھر پہنچا کر میں اپنے گھر بلا گیا۔۔
بات پولیس تک جاتی مگر مرزا جاوید مرحوم اور ان کے بھائی مرزا پرویز مرحوم سیالکوٹ کینٹ والوں نے ہمیں یہ کہہ کر روک دیا کہ پہلوان جی کو برادری کے مفادات کے خلاف کام کرنے سے روک لیں گے اور بات کو بڑھانے سے تک گیا۔۔ مگر افسوس مرزا جاوید اور مرزا پرویز کی پہلوان جی کے ساتھ قریبی رشتے داری مصلحتوں کا شکار ہوگئی
اور ایک طرف پہلوان جی گروپ نے اس ناچیز کے خلاف جھوٹی اور بے بنیاد جاہلانہ مہم چلانی شروع کردی کہ میں برادری کے تمام اثاثے بیچ کھانے کے لیے انہیں بینکوں میں گروی رکھ کر قرضہ لے لوں گا۔
میں مرزا جاوید مرحوم اور مرزا پرویز مرحوم کی بہت عزت کرتا تھا اور دونوں بھائی واقعی قابلِ احترام بھی تھے، ان کے حد سے بڑھے ہوئے اصرار پر پہلوان جی گروپ کے خلاف پورا قانونی حق رکھنے کے باوجود
اپنا معاملہ اللّٰه کے سپرد کر کے خاموش ہو گیا نہ۔کبھی اپنی صفائی کے لیے کوئی لفظ منہ سے نکالا اور نہ ہی کبھی پہلوان جی کے خلاف کبھی بات تک کی۔۔
بس انتظار کرتا رہا اور
دیگر ممبرانِ تنظیم کے ساتھ مشاورت کر کے قانون کے مطابق پہلوان جی کو تنظیم فلاح وبہبود کے نائب صدر اور ڈاکٹر ہمایوں کو خزانچی کے عہدوں سے ہٹا دیا۔
پھر سب نے دیکھا کہ اللّٰه کی بے آواز لاٹھی چلی اور ایک طرف پہلوان جی اور مرزا آزاد اپنے چیدہ چیدہ ساتھیوں کے گورکن انتظار کے ساتھ افسوسناک اور عبرتناک حد تک مقدمات میں الجھ گئے حالانکہ دوسری طرف ابتدا میں برادری کے کچھ بزرگوں کے کہنے پر پہلوان جی کے اپنے ساتھ انتہائی تضحیک آمیز رویے کے باوجود ان کے خلاف ہوئے پرچے ختم کروا دیے۔۔مگر مفادات کی جنگ اتنی بڑی کہ مرزا آزاد اور پہلوان کو نقصانات کے ساتھ ساتھ کافی عزیمت اٹھانا پڑی۔۔
آج بھی دونوں کی ایک دوسرے کے خلاف مقدمہ بازی چل رہی ہے میں کئی بار امجد بھائی کو کہہ چکا ہوں ان کے اس مقدمے میں فریق بنیں اور عدالت کے سامنے یہ حقیقت آئیں کہ قبرستان کی وقف شدہ ترپن کنال اراضی کے ریکارڈ کے مطابق میرے والد اور ان کے دو بھائیوں سمیت دو دو تین مرلے زمین سے زیادہ کسی کی بھی زمین نہیں ہمارا کوئی بزرگ کیسے دو کنال سے زیادہ زمین کا ٹکڑا انتظار کو یا اس کے والد کو دے سکتا ہے۔ میں نے کئی بار اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ مقدمہ دونوں میں سے کوئی فریق بھی جیتے نقصان برادری کا ہی ہو سکتا یے۔۔ مگر افسوس اس طرف غور کرنے کی کسی کو فرصت نہیں۔۔بس سارا فوکس جاوید تنویر کے ناکردہ گناہوں کی وجہ سے برداری اس ناچیز پر اعتماد نہ کرنے پر ہے۔۔
حق پر برادری کے نہ کھڑے ہونے کی وجہ سے بے یقینی اور نااتفاقی کی اس کیفیت کا فایدہ اٹھاتے ہوئے ملک سمیع اللہ اور جن ڈاکٹر ہمایوں مرزا صاحب بھی اپنے خلف نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی ڈیڈھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیرونِ ملک سے آئے فنڈز سے ذاتی فائدے اٹھاتے ہوئے ہمایوں صاحب تو گھر تعمیر کرتے رہے۔۔۔
اور فنڈز بھیجنے والوں کو یہ بتانے کے بجائے کہ پیسے کہاں لگے، اس معاملے کو ذاتی قرار دے کر گول کرتے رہے۔ ل
ندن سے فنڈز بھیجنے والوں کی طرف سے مجھے حساب لینے کے لیے مقرر کیا گیا تو یہ آستین کے سانپ خود بھی میرے میرے بھی خلاف ہو گئے اور پہلوان کے بھی کان بھرتے رہے۔۔
برادرم امجد! یاد رکھیں کہ میں کسی پر الزام نہیں لگا رہا، صرف وہ حقائق بیان کر رہا ہوں جنہوں نے مجھے برادری سے دور رہنے پر مجبور کر دیا۔
ان سب کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حق رکھنے کے باوجود اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا۔
پھر کیا ہوا؟ اپنے زعم میں
مرزا آزاد اور پہلوان جی نے قبرستان کی چار دیواری بناتے بناتے بزرگوں کی قبرستان کے لیے وقف شدہ زمین پر غیر شرعی طور پر اور برادری سے مشورہ و اجازت لیے بغیر دکانیں بنانے کے لیے کام شروع کر دیا اور نوبت انتظار گورکن کے ساتھ بہت بڑے جھگڑے تک پہنچ گئی۔ مرزا آزاد صاحب اور پہلوان جی نے جس طرح اپنے دیے ہوئے خلف کی خلاف ورزی کی اور پھر سخت پریشانی اٹھانی، سمجھنے والوں کے لیے آٹھ نو سالوں میں عبرت پکڑنے کی کئی نشانیاں سامنے آ چکی ہیں۔
یہ ناچیز تو صرف دعا ہی کر سکتا ہے کہ ب اللّٰہ ہم سب کو ہدایت دے کہ دنیا میں آئے ہوئے کسی ذی ہوش نے اپنے کفن میں جیبیں نہیں سلا رکھیں۔ سارا جائز ناجائز کمایا ہوا مال ادھر ہی چھوڑ کر ایک دن رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ جب کے حرام کمائی سے کھایا ہوا ایک لقمہ بھی ہماری بخشش کے راستے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہو جائے گا۔۔
امجد بھائی! جب آپ نے مجھے بتایا کہ پہلوان جی کو گولی لگی ہے تو اس ناچیز نے سیرتِ طیبہ کی پیروی کی کشش میں صرف اللّٰه اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر ان کے گھر جا کر ان کی تیمارداری کی۔ اور پہلوان جی نے بھی بڑا دل کر کے اس ناچیز کے بارے میں اپنا دل صاف کیا اور آپ کی موجودگی میں وعدہ کیا کہ وہ جلد میرے بارے میں پھیلائے جانے والے جھوٹے پروپیگنڈے کی برادری کے سامنے آکر نفی کریں گے، مگر شاید وہ مصلحتوں کا شکار ہو کر ایسا نہ کر سکے۔۔۔
میں تو ان کی اس عرض پر ان سے معافی مانگنے جیسے جائز مطالبے سے پیچھے ہٹ گیا۔
میں نے کئی سال برادری کے سامنے پیش ہو کر یہ سب باتیں ثبوتوں کے ساتھ کرنے کا انتظار کیا مگر برادری کے وسیع تر مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر بات سہتا چلا گیا۔
میں اب شاید یہ سب باتیں نہ کرتا مگر آپ اور فہیم بھائی نے اختلافات بھلانے کا کہہ کر یہ سب برادری کے سامنے رکھ دیا تاکہ اپنے اوپر لگے جھوٹے الزامات کا مرنے سے پہلے جواب دیتا جاؤں۔ اور اگر یہ اپنے لگائے الزامات واپس نہیں لیتے تو انہیں پیغام دوں کہ اگر میرے خلاف برادری کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے کوئی ثبوت ہیں تو برادری کے سامنے پیش کریں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔
امجد بھائی! آپ یقیناً برادری کے لیے بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ آپ کے توسط سے بھی اور براہ راست بھی اس ناچیز کی ساری برادری سے اپنے ساتھ ہوئے تلخ تجربات کی روشنی میں درخواست ہے کہ اگر برادری واقعی بزرگوں کے چھوڑے ہوئے اثاثوں کی فول پروف حفاظت کا بندوبست کرنا چاہتی ہے تو سچ کو سچ اور غلط کو غلط کہنے کی عادت اپنائے۔
اور کبھی مصلحتوں سے کام نہ لے، چاہے سامنے کوئی بھائی، باپ یا بیٹا بھی غلط ہو تو ہمیشہ حق کا ساتھ دے اور باطل سے خوف زدہ ہونے کے بجائے اس سے ٹکرا جائے۔
یاد رکھیں! ریاکاری اور منافقت دنیا میں بھی انسان کو رسوا کرتی ہیں اور آخرت میں بھی منافقوں کا ٹھکانہ دوزخ کا سب سے خوفناک درجہ "حاویہ" ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی منافقت اور ہر برائی سے بچائے۔ آمین۔ اور جلد آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے آگے بڑھنے کی راہ ہموار کرے۔
اللہ ہماری راہنمائی اور مدد فرمائے۔ آمین۔
حقیقی بھائی چارہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب اختلافات کو حق اور انصاف کی بنیاد پر حل کیا جائے، نہ کہ مصلحتوں کے زیر اثر یا ذاتی مفادات کے لیے دلوں میں بغض رکھ کر یا ایک دوسرے کی برائی کر کے کسی کی عزت، جان اور مال پر ہاتھ ڈالا جائے۔
قرآن نے غیبت کو سخت ترین گناہ قرار دیا ہے: (الحجرات: آیت نمبر 12
کے مطابق : "تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ یقیناً تم اسے ناپسند کرتے ہو۔"
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کا ذکر اس انداز میں کرو جو اسے ناگوار گزرے۔"
صحابہ نے عرض کیا: اگر وہ بات میرے بھائی میں موجود ہو تو؟ فرمایا:
"اگر وہ بات واقعی اس میں موجود ہے تو تم نے غیبت کی، اور اگر وہ موجود ہی نہیں تو تم نے بہتان باندھا۔" (مسلم)
لہٰذا بھائی چارے کا اصل راستہ یہ ہے کہ ہم حق اور انصاف کو معیار بنائیں، ایک دوسرے کے بارے میں دل صاف رکھیں، اور زبان کو غیبت، بہتان اور دل آزاری سے بچائیں۔ یہی دین کا حکم ہے اور یہی بستی کے امن کی ضمانت۔
بہت اہم اور نازک سوال ہے۔ قرآن و حدیث میں اس بارے میں واضح رہنمائی موجود ہے کہ:
1. بے بنیاد الزام تراشی (بہتان / بہتان باندھنا)
قرآن مجید نے بہتان اور جھوٹے الزامات کو سخت ترین گناہ قرار دیا ہے۔
سورۃ النور (24:11-16) میں حضرت عائشہؓ پر لگائے گئے الزام (واقعہ اِفک) کا ذکر ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ الزام دراصل "بہتان عظیم" تھا۔
اللہ نے فرمایا:
> "جب تم نے یہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے اپنے دلوں میں نیک گمان کیوں نہ کیا اور کیوں نہ کہا کہ یہ تو ایک کھلا بہتان ہے؟" (النور: 12)
یعنی الزام تراشی کی اصل جڑ دوسروں پر بدگمانی اور بلا تحقیق بات آگے پھیلانا ہے۔
2. صفائی پیش کرنا اور الزام تراش کا پردہ چاک کرنا
اسی سورۃ النور میں اللہ نے بتایا کہ اہل ایمان کو چاہیے کہ ملزم اپنی صفائی دے اور الزام تراش کے جھوٹ کو ظاہر کرے۔
اللہ تعالیٰ نے صاف کہا کہ جو لوگ یہ الزام پھیلانے میں شریک تھے وہ "تم میں سے ایک گروہ ہے" اور یہ ان کے لئے عذاب کا سبب بنے گا۔
اس سے یہ اصول نکلتا ہے کہ بے بنیاد الزام لگانے والے کے جھوٹ کو سامنے لانا اور حق واضح کرنا عین دینی فریضہ ہے، تاکہ معاشرے میں فتنے اور بگاڑ کو روکا جا سکے۔
3. غلط فہمی دور کرنا
قرآن میں اصول ہے:
> "اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم جہالت سے کسی قوم کو نقصان پہنچا دو، پھر تمہیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔" (الحجرات: 6)
یعنی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے تحقیق اور وضاحت ضروری ہے، تاکہ معاشرتی فساد نہ پھیلے۔
4. احادیث سے رہنمائی
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> "کیا میں تمہیں سب سے بڑے کبیرہ گناہوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، اور جھوٹی گواہی دینا (یا جھوٹا الزام لگانا)۔" (بخاری و مسلم)
ایک اور حدیث میں فرمایا:
> "جو شخص اپنے بھائی کی عزت اور آبرو کی حفاظت کرتا ہے، اللہ قیامت کے دن آگ سے اس کی حفاظت کرے گا۔" (ترمذی)
یعنی اگر کوئی جھوٹا الزام لگائے تو انسان پر لازم ہے کہ سچائی بیان کر کے اپنے بھائی یا اپنی عزت کا دفاع کرے۔
آخر میں ایک وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ
قرآن کے مطابق بے بنیاد الزام تراشی بہتان عظیم ہے۔
اپنی صفائی دینا اور الزام تراش کے جھوٹ کو ظاہر کرنا لازم ہے تاکہ فتنہ دب جائے اور معاشرہ بگڑنے سے بچ جائے۔
غلط فہمی دور کرنے کے لیے قرآن نے "تحقیق" اور "سچائی کو ظاہر کرنے" کا حکم دیا۔
حدیث کے مطابق جھوٹا الزام لگانا کبیرہ گناہ ہے، اور کسی مسلمان کی عزت کا دفاع کرنا نیکی اور اجر عظیم ہے۔
برادران برادری
آخر میں عرض کرتا چلوں
کہ
جی بالکل۔ یہ ایک مختصر، عام فہم اور مدلل پیغام آپ کے لیے تیار کیا ہے، جسے آپ کسی پر لگے بے بنیاد الزام کے جواب یا صفائی کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں:
---
✦ جواب / وضاحتی پیغام ✦
الحمدللہ! میں اپنے رب کے سامنے اور اہل ایمان کے سامنے یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مجھ پر لگایا گیا الزام سراسر بے بنیاد اور جھوٹ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے:
> "یہ ایک کھلا بہتان ہے۔" (النور: 12)
قرآن ہمیں یہ بھی حکم دیتا ہے:
> "اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم جہالت سے کسی قوم کو نقصان پہنچا دو، پھر تمہیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔" (الحجرات: 6)
رسول اللہ ﷺ نے جھوٹے الزام کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے اور فرمایا:
" جوشخص اپنے بھائی کی عزت کا دفاع کرے گا، اللّٰه بردگ و بدتر قیامت کے دن آگ سے اس کی حفاظت کرے گا۔" (ترمذی)
لہٰذا میں حق اور سچائی کو بیان کر کے اپنا فرض ادا کر رہا ہوں، تاکہ اس ناچیز کے بارے۔میں پھیلائی گئی غلط فہمیاں دور ہوں اور الزام تراشیاں کرنے والوں کا جھوٹ ظاہر ہو جائے۔ باقی دلوں کا حال اللہ جانتا ہے، اور اسی کے سپرد کرتا ہوں۔
اگر اس بارے میں کوئی سوال ہو تو بل جھجھک پوچھیں۔۔
یہ ناچیز آئندہ تنظیم فلاح کے بارے پیدا ہونے والے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کروں گا دوسرے کچھ دوستوں کی طرف سے میرے سے براہ راست پوچھے گئے کچھ سوالات اور آپ کے ذہنوں میں جنم لینے والے سوالات کے بھی جلد از جلد جواب دینے کی کوشش کروں گا اور مزید ایسے ضروری سوالات کے جوابات بھی دوں گا جو بیک وقت بے حد ضروری بھی ہیں اور مفید بھی ہیں۔۔
حیر اندیش
جاوید تنویر
تنظیم فلاح و بہبود
لوٹ ائیں اپنے رب کی طرف اس سے پہلے کہ لوٹا لیے جائیں
پاکستان ووٹرز فرنٹ کے منشور لائحہ عمل اور قران اور حدیث کی روشنی میں تیار عوامی انتخابی پروگرام کے تفصیلی تعارف کے لئے لاہور پریس کلب میں مورخہ 07 جون 2018 کو ایک پریس کانفرنس منعقد ہوئی جس میں جاوید تنویر پاکستان ووٹرز فرنٹ نے صھافیوں کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ووٹرز اب تمام م قومی اسمبلی کے حلقوں میں ووٹروں کے منظم الیکٹورل کالج بنائے جائیں گے جو منتخب ہونے والے قومی اور صوبائی ارکان اسمبلیوں سے انفرادی ،اجتماعی اور قومی مثائل عوای امنگوں کے تحت حل کراسکیں گے۔ اور قومی امور میں براہ راست اپنی مشاورت دے سکیں گے۔
پاکستان ووٹرز فرنٹ پاکستان کے نو کروڑ سترلاکھ ووٹروں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے اپنے قومی اسمبلی کے خلقوں کی سطح پر اپنے علاقوں میں موجود ایماندار، پڑھے لکھے اور باصلاحیت افراد کےکاغذات نامزدگی برائے امیدواران قومی و صوبائی اسمبلی متعلقہ دفتر الیکشن کمیشن میں ۱۱۔جون ۲۱۰۸ تک جمع کر ادیں ۔تا کہ کا غذاتِ نامزدگی کی منظوری حاصل کرنے والے امیدواروں کے متعلق معلومات اکٹھی کر کے ان میں سے بہرتین افراد کو چن کر عوامی انتخابی پروگرام کے تحت آئندہ انتخابات میں کامیاب کروایا جا سکے۔