واضح کرتا چلوں کہ میرے اور پہلوان جی کے اختلافات کبھی ذاتی نوعیت کے نہیں رہے ۔۔
بلکہ یہ اختلافات اس وقت پیدا ہوئے جب پہلوان جی نے اللّٰه کو حاضر ناضر جان کر برادری کو دئے ایمانداری سے چلنے اور برادری سے وفاداری کے تحریری خلف نامے کو ہوا میں اڑا کر برادری کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔۔۔
اور اس امر سے روکنے پر پہلوان جی نوبت ذاتی دشمنی تک لے آئے۔۔ ان کا خلف نامہ پہلے ہی آپ کی پیش خدمت کر دیا ہوا ہے۔۔۔
لہذا یہ بات اختلافات یا غلط فہمیوں کی نہیں، بلکہ حق پر ڈٹے رہنے اور باطل کے آگے ہتھیار نہ ڈالنے کی تھی اور ہے اور میری آخری سانس تک رہے گی۔۔
آپ نے اپنی تحریر میں پہلوان جی کا ذکر کیا تو مجھے وہ وقت یاد آ گیا جب ڈاکٹر ہمایوں مرزا نے پولیس میں اس ناچیز اور بھائی عامر کھوکھر کے خلاف ایف آئی آر کاٹتے کے لیے درخواست کے ساتھ اپنا جھوٹا بیانِ حلفی جمع کروایا، جس میں اس ناچیز اور عامر بھائی پر مرزا آزاد کو قتل کرنے جیسی گھناؤنی سازش تیار کرنے کا الزام لگایا گیا تاکہ ہمیں جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر کے ہمیں راستے سے ہٹایا جا سکے۔
اور انہیں ان کے عزائم سے روکنے والا کوئی نہ بچے۔
مگر اللّٰه کا کرنا کیا ہوا کہ
تھانہ کوٹلی لوہاراں کے ایس ایچ او کے سامنے جب ہم پیش ہوئے تو ڈاکٹر ہمایوں جھوٹا ہونے وجہ سے ڈر گیا اور اپنے جھوٹے بیانِ حلفی سے مکرتے ہوئے یہ بتا کر معافیاں مانگنے لگ گیا کہ اس نے ایف آئی آر کی درخواست کے ساتھ یہ اشٹام پیپر پر جھوٹا بیان خلفی لگایا پہلوان جی وغیرہ کے مجبور کرنے پر لکھوا کر تھانے میں جمع کروایا اس کے علاؤہ ایس ایچ او کے سامنے ایک اور تحریری بیان خلفی دیا کہ اس کا بیان خلفی جھوٹا ہے تحریر لکھ دیکی دی ہوئی جھوٹی درخواست خارج کر دی جائے۔
برادران! اس وقت ہم ان سب کے خلاف سخت قانونی کارروائی کروا سکتے تھے مگر ڈاکٹر ہمایوں کی تحریری معافی مانگنے پر اور بچیوں کا واسطہ دینے پر اسے اللّٰه کی رضا کی خاطر چھوڑ دیا۔۔۔
اس کے بعد ہماری غلطی یہ تھی کہ ڈاکٹر ہمایوں کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے کہنے پر یہ ناچیز اور عامر کھوکھر مرزا پرویز مرحوم و مغفور (سیالکوٹ کینٹ)
کو ساتھ لے کر
برادری کے وسیع تر مفاد میں پہلوان جی کو سمجھانے دارالامن گئے کہ وہ بحیثیت نائب صدر تنظیم فلاح و بہبود اس طرح کی حرکتیں آئندہ نہ کریں اور اپنے دیے ہوئے خلف کی پاسداری کرتے ہوئے دارالامن کو صرف برادری کی بہتری کے لیے استعمال کریں، مگر وہ مشتعل ہو گئے اور ہم دونوں پر دارالامن میں اپنے پہلے سے موجود ساتھیوں کی مدد حملہ آور ہو گئے۔۔۔
جہاں عامر کھوکھر نے نہایت دلیری سے پہلوان جی کے حملہ اور ساتھیوں کو بے بس کر دیا اور پہلوان جی کو دبوچنے ہی والا تھا کہ۔ہمارے ساتھ گئے مرزا پرویز صاحب اس حوفناک صورت حال کو دیکھتے ہوئے دل کی تکلیف میں مبتلا ہو گئے۔
اور ہم دونوں سب چھوڑ چھاڑ چھاڑ کر پرویز بھائی کو سنبھالنے میں لگ گئے کچھ دیر بعد ان کی حالت سنبھلنے پر انہیں ان کے گھر پہنچا ائے۔
بات پولیس تک جاتی مگر مرزا پرویز اور مرزا جاوید مرحوم اور (سیالکوٹ کینٹ) والوں نے ہمیں یہ کہہ کر روک دیا کہ ہم "پہلوان جی کو برادری کے مفادات کے خلاف کام کرنے سے سختی کے ساتھ روک دیں گے" اس وجہ سے ہم بات کو پولیس تک لے جانے سے رک گئے۔۔
مگر افسوس مجھے لگا کہ ایک طرف مرزا جاوید اور مرزا پرویز کی پہلوان جی کے ساتھ قریبی رشتے داری نے دونوں بھائیوں کو مصلحتوں کا شکار کر دیا ہے دوسری طرف پہلوان جی گروپ نے اس ناچیز کے خلاف جھوٹی اور بے بنیاد اور جاہلانہ مہم چلانی شروع کردی کہ میں برادری کے تمام اثاثے بیچ کھانے کے لیے انہیں بینکوں میں گروی رکھ کر قرضہ لے لوں گا۔ وغیرہ وغیرہ
میں مرزا جاوید مرحوم اور مرزا پرویز مرحوم کی بہت عزت کرتا تھا اور دونوں بھائی واقعی قابلِ احترام بھی تھے، ان کی یقین دہانیوں اور ان کے حد سے بڑھے ہوئے اصرار پر پہلوان جی گروپ کے خلاف مکمل قانونی حق رکھنے کے باوجود
اپنا معاملہ اللّٰه کے سپرد کر کے خاموش ہو گیا پھر نہ کبھی اپنی صفائی کے لیے کوئی لفظ منہ سے نکالا اور نہ ہی کبھی پہلوان جی کے خلاف کبھی بات تک کی۔۔
میں نے بعد میں خلف کی خلاف ورزیوں
پر دیگر ممبرانِ تنظیم کے ساتھ مشاورت کر کے قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے پہلوان جی کو تنظیم فلاح وبہبود کے نائب صدارت اور ڈاکٹر ہمایوں کو خزانچی کے عہدے سے ہٹا دیا۔
پھر سب نے دیکھا کہ اللّٰه کی بے آواز لاٹھی چلی اور ایک طرف پہلوان جی اور مرزا آزاد اپنے چیدہ چیدہ ساتھیوں کے ساتھ انتظار کے گورکن کے ساتھ افسوسناک اور عبرتناک حد تک مقدمات میں الجھ گئے سچی بات تو یہ ہے کہ ابتدائی طور پر یہ جھگڑا انتظار گورکن نے برادری کی بزدلی کو دیکھتے ہوئے صرف اور صرف پہلوان جی، مرزا آزاد اور ان کے ساتھیوں کی قبرستان کی زمین پر کسی بھی اچھے یا برے مقاصد حاصل کے لیے غیر شرعی طور پر دوکانات بنانے سے روکنے کے لیے کیا تھا۔
دوسری طرف اس جھگڑے میں برادری کے کچھ بزرگوں کے کہنے پر پہلوان جی کے اپنے ساتھ انتہائی ناروا رویے کے باوجود انتظار پر دباؤ ڈال میں نے ان کے خلاف سارے پرچے ختم کروا دیے۔۔
مگر بعد میں مفادات کی اس جنگ میں انتظار بھی قبرستان کی زمین میں دو کنال کے مالکانہ حقوق کا دعوہ کر بیٹھا اور پھر بات اتنی بھیڑ گئی کہ تھانہ کچہری میں مرزا آزاد اور پہلوان جی کو ناکوں چنے چبوانے کے ساتھ ساتھ خاصے مالی نقصانات سے دو چار بھی ہونا پڑا گیا۔
اور کافی بدنامی بھی اٹھانا پڑی۔۔
آج بھی دونوں میں سے کسی فریق نے سبق نہیں سیکھا اور لالچ میں اندھے ہو کر دونوں فریق ایک دوسرے کے ساتھ نورا کشتی کر رہے کیونکہ دونوں ہی فریق عدالتوں میں نورا کشتی بھی کر رہے ایک دوسرے کے ساتھ ایک بار پھر اکثر مقامات پر شیر و شکر شکر ہوتے نظر بھی آرہے ہیں۔۔
میں کئی بار امجد بھائی کو کہہ چکا ہوں ان کے مقدمے میں تنظیم فلاح بہبود کی طرف سے فریق فریق بنیں اور عدالت کے سامنے یہ حقیقت دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ لائیں کہ قبرستان کی بزرگوں کی طرف سے وقف شدہ ترپن کنال اراضی کے ریکارڈ کے مطابق کسی بھی حصہ دار کے دو دو تین مرلے سے زیادہ کسی کی بھی زمین نہیں لہذا ہمارا کوئی بزرگ کیسے دو کنال سے زیادہ زمین انتظار کو یا اس کے والد کو تحفے کے طور دے سکتا ہے۔
میں نے کئی بار اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ مقدمہ دونوں میں سے کوئی فریق بھی جیتے نقصان برادری کا ہی ہو سکتا یے۔۔
مگر افسوس اس طرف غور کرنے کی کسی کو فرصت نہیں۔۔بس سارا زور جاوید تنویر کے ناکردہ گناہوں کے اوپر ہے کہ جس کی وجہ سے برادری اس
ناچیز پر اعتماد نہیں کرتی۔ باقی آیندہ
پاکستان ووٹرز فرنٹ کے منشور لائحہ عمل اور قران اور حدیث کی روشنی میں تیار عوامی انتخابی پروگرام کے تفصیلی تعارف کے لئے لاہور پریس کلب میں مورخہ 07 جون 2018 کو ایک پریس کانفرنس منعقد ہوئی جس میں جاوید تنویر پاکستان ووٹرز فرنٹ نے صھافیوں کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ووٹرز اب تمام م قومی اسمبلی کے حلقوں میں ووٹروں کے منظم الیکٹورل کالج بنائے جائیں گے جو منتخب ہونے والے قومی اور صوبائی ارکان اسمبلیوں سے انفرادی ،اجتماعی اور قومی مثائل عوای امنگوں کے تحت حل کراسکیں گے۔ اور قومی امور میں براہ راست اپنی مشاورت دے سکیں گے۔
پاکستان ووٹرز فرنٹ پاکستان کے نو کروڑ سترلاکھ ووٹروں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے اپنے قومی اسمبلی کے خلقوں کی سطح پر اپنے علاقوں میں موجود ایماندار، پڑھے لکھے اور باصلاحیت افراد کےکاغذات نامزدگی برائے امیدواران قومی و صوبائی اسمبلی متعلقہ دفتر الیکشن کمیشن میں ۱۱۔جون ۲۱۰۸ تک جمع کر ادیں ۔تا کہ کا غذاتِ نامزدگی کی منظوری حاصل کرنے والے امیدواروں کے متعلق معلومات اکٹھی کر کے ان میں سے بہرتین افراد کو چن کر عوامی انتخابی پروگرام کے تحت آئندہ انتخابات میں کامیاب کروایا جا سکے۔