PVF Blog


PVF Blog Archive

بابا جی شفیق بٹ کے خظوط کا جواب

 

وعلیکم السلام

سب سے پہلے، یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں آپ کے عجیب رویّے سے سخت ناخوش ہوں، اسی لیے بار  بار آپ کی الزام تراشیوں کا جواب دینے سے احتراز برتتا رہا۔

 

اختلاف رائے اپنی جگہ ہوتا ہے، مگر دینِ اسلام کسی کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوسروں کے مال پر نظر رکھے اور اسے اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خاطر دوسروں پر دباؤ ڈالے۔۔ یا دوسروں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرے۔۔

اسے بخیل کہے یا کنجوس کہے، وعدہ خلافی کے طعنے دے اور دوسروں کے ایمان پر شک یا تنقید کرے مقاصد پورے نہ ہونے پر کسی کی کردار کشی جیسے آسان مگر غلیظ عمل میں ملوث ہو جائے۔۔

 

آپ جمیعت علمائے اسلام (نیازی) کے مرکزی چیرمین ہیں اپنی سیاسی جماعت کے منشور کے مطابق اقتدار میں آکر وزیراعظم بننا چاہتے ہیں اس مقصد کے حصول کے لیے پارٹی فنڈ کے نام سے کسی کے بھی آگے ہاتھ پھیلانے کو برا نہیں سمجھتے۔۔

 

 مگر یہ ناچیز بطورِ  بانی پاکستان ووٹرز فرنٹ، پی وی ایف کے  منشور کے مطابق کسی عہدے کسی شہرت اور دولت کی خواہش سے دور وطن عزیز کے اقتدار جیسی امانت کو حقیقی عاشقان رسول ﷺ کو سونپنے کے لیے بے لوث جدوجہد کر رہا ہوں۔۔

کسی غیر ممبر کے آگے ہاتھ پھیلائے کی بجائے اللّٰہ تعالیٰ کے عطاء کیے ہوئے وسائل سے آگے بڑھ رہا ہوں۔۔ حتیٰ کہ 2011 سے ممبران کے دیے ہوئے بطور گی لاکھوں روپے کو ممبران کی امانت سمجھتے ہوئے انہیں ایک سسٹم کے بغیر خرچ کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔۔ اور پیسے وہیں کہ وہیں پڑے ہیں۔ 

 

آپ سمجھتے ہیں کہ مائیک پکڑ کر دوسروں کے اشعار پڑھ کر اور جوشیلی تقریریں کرنے ، نعرے لگا کر  اور علما مشائخ کونسلوں کی نشستن، گفتن، حلوے مانڈے کھاسن اور پھر برخاستن سے ملک میں اللّٰه کے  دین کا  نفاذ ہو جائے گا۔۔

 برائے مہربانی اپنی یہ سوچ اپنے پاس ہی رکھیں  کسی کا  وقت اور حلال ذرائع سے کمایا ہوا پیسہ ضائع نہ کروائیں اور نہ ہی  عوام کو دھوکا دیں۔۔

 

 اخبارات میں تصویریں چھپوانے، بیان لگوانے اور اپنی ویڈیوز الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر ڈالنے سے اس ملک میں نظامِ مصطفیٰ ﷺ ہر گز نافذ نہیں ہو سکتا۔

 

لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نظام قائم کرنے کے تقاضے کچھ اور ہیں جو کسی نے پورے کرنا تو دور کی بات ہے ان کے بارے میں سوچنے کی بھی زحمت کبھی کسی نے گوارہ نہیں کی۔

 

آپ الزام لگاتے ہیں کہ ہر کسی پر تنقید کرتا ہوں۔۔

تنقید انہیں پر کرتا ہوں جو رب ذاتی نمود و نمائش اور ذاتی مفادات پر یقین رکھتے ہیں۔

 

 ایسا ہر گز نہیں  میرے پاس بھی بڑے بڑے علماء مفتی، ڈاکٹریٹ تک کی ڈگری ہولڈر آتے ہیں  مفتی آتے ہیں بات چیت کرتے ہیں ہم میں اختلاف رائے ہوتا ہے لیکن  قرآن اور احادیث کی روشنی میں دلیل سے یا قائل ہو جاتا ہوں یا اکثر قائل کر لیتا ہوں یاد رہے ثابت کر سکتا ہوں کہ اس ناچیز سے اختلاف کسی کو کم ہی ہوا ہے میری باتوں سے قائل ہو کر ہی پاکستان ووٹرز فرنٹ کے ممبر بن جاتے ہیں۔ جن میں آپ ہی کے بقول آپ کے دشمنوں سے مل جانے والے سابقہ دوست ڈاکٹر پروفیسر خفیظ الرحمن بغدادی جیسے جید عالم سابق جج اور ان کے صاحب زادے اویس بغدادی کی شمولیت پاکستان ووٹرز فرنٹ کی واضح اؤر جامع روڈ میپ کے ساتھ جدوجہد پر ان کے اعتماد کی اپنی مثال آپ ہے۔۔

 

بابا شفیق بٹ صاحب اگر اپنی شخصیت پرستی 

میں  چلنے والی بے تکی پچاس سالہ ناکام جدوجہد سے اگر  مجاہد اسلام ہونے باوجود ایک کونسلر کے طور پر منتخب نہ ہو سکتے  ہوں تو اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں۔۔

 

یہ ناچیز پاکستان کے علماء اور مشائخ کونسل ہو یا اکابرینِ دین ہوں سب کا دل سے احترام کرتا ہے،

 

 مگر شخصیات پرستی جیسی شرکیہ لعنت کو  مشرکانہ حرکت  سمجھتا ہوں۔۔

 

میرے نزدیک نبی کریم ﷺ ہی دونوں جہانوں کے اصل قائدِ و رہبر اعظم ہیں جب انہوں نے اپنی شخصیت پرستی کی اجازت نہ دی تو ہمیں کیا حق ہے کہ ہم شخصیات پرستی کی۔لعنت کا شکار ہو کر ہر کسی کی کو اپنا پیرو مرشد سمجھ کر ان کی چاپلوسی کرتے پھریں۔

 

خلفائے راشدین کی قیادت، اور صحابہ اکرام کی زندگیاں حضور ﷺ کی تربیت کا روشن شاہکار ہیں۔

 

ان سے محبت اور عقیدت، اللّٰہ اور اس کے رسول ﷺ کی نظرِ کرم پانے کا وسیلہ سمجھتا ہوں۔۔

 

یاد رکھیں! امام حسنؑ و امام حسینؑ اور اہلِ بیتؑ کا مقام کسی تعریف کا محتاج نہیں۔ وہ خود ہی امت مسلمہ کے لیے  روشنی کے مینار ہیں

 

اسی طرح حضرت داتا علی ہجویریؒ ، شیخ عبد القادر جیلانی سے لے کر پیر جماعت علی شاہؒ اور سج آج تک جتنے حقیقی اولیاء کرام ہیں، ان کی تعظیم اور ان کی سیرت کی تقلید کو میں سیرتِ طیبہ کی پیروی کا زینہ سمجھتا ہوں۔

 

لیکن حقیقت یہ ہے کہ نظامِ مصطفیٰ ﷺ وہ لوگ کبھی نافذ نہیں کر سکتے جو وسائل، افرادی قوت اور علم رکھنے کے باوجود  تقدّسِ قرآن کی حرمت کی حفاظت نہ کر سکیں، جو  ناموسِ رسالت ﷺ پر ہونے والے حملوں کو روک نہ سکیں۔

 

قادیانی لعنتیوں جیسے فتنے کی سرکوبی نہ کروا سکے۔

 

بابا جی! دین پر چلنے کے اپنے تقاضے ہیں، دین کو صحیح معنوں میں اپنانے کے کچھ اٹل اصول  ہیں، دوسروں کو دین کو سکھانے کی اپنی ترجیحات اور تصریحات ہیں۔

 

آج کے دور کی سب سے بڑی قباحت یہی ہے کہ آئین سے انحراف کرنے والے کو تو موت کی سزا مل سکتی ہے، لیکن قرآن کی بے حرمتی کرنے والے کو کوئی سزا نہیں دی جاسکتی۔

 

اور آج کے فتنہ انگیز دور میں دین کے نفاذ کے لیے جس دینی اور سیاسی  فہم و فراست کی ضرورت ہے معزرت کے ساتھ، بدقسمتی سے وہ دور دور تک نظر نہیں آتی۔۔

 

یہ سب ہمارے ایمان کی کمزوری کی علامتیں ہیں۔۔

 

علامہ صاحب ایسے ہی نہیں کہہ گئے۔۔۔

 

افسوس، صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تُو

 

دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات

 

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

 

ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!

 

جہاں بے شمار جید علماء و مشائخ اور صاحب کشف و کرامات پیر و مرشد ہوں

اور ان کے لاکھوں مریدین ہوں۔۔۔۔

 

۔وہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ

 

آخر اس ملک میں یہ سب مل کر اٹھہتر سالوں میں نظامِ مصطفیٰ ﷺ نافذ کیوں نہ کروا سکے ؟

 

یہ ناچیز نہایت عاجزی سے تمام علماء، مشائخ اور پیرو مرشد اور ان کے مریدوں سے سوال کرتا ہے کہ بے شمار پیر و مرشدوں، علماء و مشائخ اور ان کے لاکھوں کروڑوں ماننے والوں کے ہوتے ہوئے اور تمام ولیوں پیروں مرشدوں،، علماء و مشائخ اور ان کے لاکھوں کروڑوں مریدین نے بلا شک و شبہ بہت کوششیں کیں ہوں گی اور اب بھی کرتے چلے آرہے ہیں ، ہر طریقہ آزما چکے ہیں، لیکن عمریں گزر گئیں،  نظام مصطفیٰ کے نفاذ کا خواب آنکھوں میں سجائے ہم میں سے کئی دنیا سے رخصت ہو گئے اور ہورہے ہیں، سوال یہ بھی بنتا ہے کہ پھر بھی ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کی اکثریت کی طرف سے متفقہ طور پر منظور کی گئی قراردادِ مقاصد پر ان تک  عملدرآمد نہ کرا سکے۔۔

 

آخر کیوں؟

 

دراصل کہیں ایسا تو نہیں کہ۔۔

 

جو بویا گیا تھا، وہی کاٹنا تھا۔

 

جناب عالی

 

جہاں انتخابی قوانین صرف امیدوار کے تحفظ کے لیے ہیں، مگر ووٹرز کے لیے کوئی ضمانت نہیں۔

 

جہاں پہلے سے کٹے پھٹے حاصل کیے گئے ملک کو بھی دولخت کرانے والوں! نے اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل میں بڑی محنت کر کے اسے  اندھیر نگری بنا ڈالا ہو اور اس میں کانے راجاؤں کے راج قائم کرتے چلے جا رہے ہوں اور ہر شاخ پر الو بٹھا کر اسی درخت کی جڑیں کاٹ رہے ہوں  جس پر ان کا بسیرا ہو تو سوچیں اس چمن کا انجام تو اجڑنے کے سوا کیا ہونا ہے۔

 

 اوپر سے زلزلوں، سیلابوں  اور طوفانوں کا عذاب بھی علماء اور مشائخ کے ساتھ قوم کی آنکھیں نہ کھولے   تو پھر اللّٰه فرشتوں کو بستیوں کی بستیاں انہیں پر الٹانے کا حکم نہ دے تو کیا پھر اللّٰه اپنے قانون مقافاتِ عمل کو  بدل ڈالے  ۔۔  کوئی غلط فہمی میں نہ رہے۔۔

 اللّٰہ ہر گز ایسا نہیں کرے گا۔

 

ہمیں ہی خود کو بدلنا ہو گا شخصیات پرستی جیسی شرکیہ لعنت سے  نجات پانا ہو گی اپنی نفی کرتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچنا ہو گا  کہ جس راستے پر چل کے یہ  پاکستان کو اسلام کا عظیم الشان گہوارہ بنانا  چاہتے چلے آرہے ہیں وہ تمام کائناتوں کے قائد اعظم رہبر اعظم اور رحمتہ اللعالمین کا بتایا ہوا دنیا اور آخرت میں کامرانی راستہ ہے۔۔ یا ذلت و رسوائی میں جینے اور مرنے کا  ابلیس پرستوں کا ایسا  راستہ ہے ۔۔۔جو قوم کو جہنم کی طرف دھکیل رہا ہے۔۔

 

جس دن آپ اپنی اپنی میں میں چھوڑ کر اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو

بادام کھائے بغیر ایک نکمے   امتی کی بات سمجھ آ جائے گی کہ جتنا زیادہ ہم سیرت طیبہ کو اپناتے جائیں گے اتنی جلد وطن عزیز کو اسلام کا عظیم الشان گہوارہ بناتے چلے جائیں  گے۔

 

یہاں نہایت عاجزی سے

عرض کرتا  چلوں کہ اللّٰه نے جس توفیق سے نوازا ہے، وہ صرف پاکستان ووٹرز فرنٹ کے عوامی انتخابی نظام کی صورت میں ہے، جو قرآن و احادیث کی روشنی میں تیار کیا گیا ہے۔

 

 اور اس ناچیز کا اللّٰہ پر مکمل ایمان ہے کہ اگر پاکستان میں نظامِ مصطفیٰ ﷺ قائم ہو سکتا ہے، تو اسی واحد راستہ پر چل کر قائم ہو سکتا ہے در در کی ٹھوکریں کھانے سے نہیں، آن آستانوں اور درگاہوں کے کے  کو قائل کرنے سے کہ پاکستان ووٹرز فرنٹ کے عوامی انتخابی نظام کو اپنائے بغیر فاسق اور منافق حکمرانوں سے پر امن رہتے ہوئے نجات ممکن نہیں اور ان منافق اور فاسقوں کے ہوتے ہوئے عوام بھی اپنی دنیا اور آخرت سنوارنے  کے قابل ہو جائیں۔

 

جس کو اس ناچیز کی اس بات پر یقین یقین نہیں وہ اٹھہتر سالوں سے پیٹی جانے والی گزرے سانپوں کی لکیر پیٹتا رہے اور  اس نوآبادیاتی نظام کے سانپوں سے  مومن کہلانے کے باوجود خود کو ڈسواتا رہے۔۔

 

اے امت! سنو!

اب وقت ہے کہ قیادت کا معیار بدلا جائے،

اب وقت ہے کہ ووٹ کتاب و سنت کے چراغ تلے ڈالا جائے۔

 

نظامِ مصطفیٰ ﷺ نعروں  سے نہیں آئے گا،

 

یہ قرآن کی حاکمیت اعلیٰ تسلیم کرنے سے ہی ہوگا۔۔

 

پاکستان ووٹرز فرنٹ اسی عزم کی صدا ہے،

یہ وہ روشنی ہے جو اندھیروں میں خدا کی عطا ہے۔

 

اٹھو! کہ  محمد ﷺ ہی ہمارا قائدِ و رہبر اعظم ہے،

 

اور ان کا نظام ہی ہمارا اصل محکم و دائم ہے۔

 

کر عطا ہم کو حقیقت کی بصیرت اے کریم، 

کہ ولی کی پہچان ہو اطاعتِ رسولِ عظیم ﷺ۔

 

بچا لے ہمیں اندھیروں کی غلامی سے خدایا،

 

چمکا دے ہمیں قرآن کے پیغام سے خدایا۔ (خود )

 

جاوید تنویر

پاکستان ووٹرز فرنٹ

لوٹ آؤ اپنے رب کی طرف اس سے پہلے کہ لوٹا لیے جاو۔

Posted On: 2025-09-03 13:31:15

Latest Tweets


Latest News
  • '

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                     

  • 'پی ۔ وی ۔ایف کی آیندہ انتحابات میں منتخب ہونے وال

    پاکستان ووٹرز فرنٹ کے منشور لائحہ عمل اور قران اور حدیث کی روشنی میں تیار عوامی انتخابی  پروگرام کے تفصیلی تعارف کے لئے لاہور پریس کلب میں مورخہ 07 جون 2018 کو ایک پریس کانفرنس منعقد ہوئی جس میں جاوید تنویر پاکستان ووٹرز فرنٹ نے صھافیوں کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ووٹرز اب تمام م قومی اسمبلی کے حلقوں میں ووٹروں کے منظم الیکٹورل کالج بنائے جائیں گے جو منتخب ہونے والے  قومی اور صوبائی  ارکان اسمبلیوں سے  انفرادی ،اجتماعی اور قومی مثائل عوای امنگوں کے تحت حل کراسکیں گے۔ اور قومی امور میں براہ راست اپنی مشاورت دے سکیں گے۔

  • 'ُُپاکستان کے نو کروڑ ستر لاکھ ووٹرزوں سے اپییل

    پاکستان ووٹرز فرنٹ پاکستان کے نو کروڑ سترلاکھ ووٹروں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے اپنے قومی اسمبلی کے خلقوں کی سطح پر اپنے علاقوں میں موجود ایماندار، پڑھے لکھے اور باصلاحیت افراد کےکاغذات نامزدگی برائے امیدواران قومی و صوبائی اسمبلی  متعلقہ دفتر الیکشن کمیشن میں ۱۱۔جون ۲۱۰۸ تک  جمع کر ادیں ۔تا کہ کا غذاتِ نامزدگی کی منظوری حاصل کرنے والے امیدواروں کے متعلق معلومات اکٹھی کر کے ان میں سے بہرتین افراد  کو چن کر  عوامی انتخابی پروگرام کے تحت آئندہ انتخابات میں کامیاب کروایا جا سکے۔